★ سرفراز حسین خبیرؔ لکھنوی ★
خبیر لکھنوی مرزا دبیر کے فرزند مرزا اوج کے شاگرد تھے اور اپنے عہد کے مشہور مرثیہ نگار تھے ۔ چہادہ معصومین کے حال میں الگ الگ مرثیے کہے ہیں ۔ خبیر دبستان دبیر کے آخری مرثیہ گو تھے ۔ دبیر کی روایت کو نہایت کامیابی سے برقرار رکھا ۔ آپ کا ایک مرثیہ امام حسن کی شہادت کے ذیل میں ہے اس کے کچھ بند حاضر ہیں
حسن نے آکے مدینے میں جب قیام کیا…
تو صبر و شکر کا حضرت نے اختتام کیا
کبھی نہ شکوۂ جور ِ امیر ِ شام کیا
مگر یہ حاکم ِ اظلم نے انتظام کیا
خدا کے دین پہ ڈھاتا تھا روز قہر نیا
کہ بھیجتا رہا مروان کو وہ زہر نیا
دیا پینے کے پانی میں جعدہ نے وہ سم
اجل نصیب کو کچھ تشنگی ہوئ جسدم
رکھا ہوا تھا سرہانے وہ کوزہ ہاۓ ستم
خود اپنے ہاتھ سے پانی پیا کہ پیاس ہو کم
اثر نے سم کے کیا دل کو سر بسر ٹکڑے
بس ایک گھونٹ پیا تھا ہوا جگر ٹکڑے
ہر ایک لفظ ِ وصیّت تھا دفتر ِ حکمت
یہ کہتے کہتے ہوئ غیر دفعتا” حالت
اثر سے زہر کے تھی سبز جسم کی رنگت
جبیں پہ آیا عرق چھائ چہرے پہ حسرت
نشان ِ سجدہ مکرّر حسین نے چوما
ماتھے کو جھک کر حسین نے چوما
کفن حسین نہ پائیں گے زینب ہوگی اسیر
گلے میں ہوگی رسن اور پاؤں میں زنجیر
یہاں حسن کے ہے غسل و کفن کی سب تدبیر
نہ ہوگا دفن کئ روز تک لاشۂ شبّیر
حسین اٹھا رہے ہیں اپنے بھائ کا لاشہ
نہ دفن ہوگا کئ روز شۂ کربلائ کا لاشہ
ارادہ تھا کہ ہو قبر نبی کے پاس مزار
ہزار حیف نہ راضی ہوۓ مگر اشرار
لگاۓ تیر حسن کے جنازے پر اکبار
کئ خدنگ در آۓ کفن میں آخر کار
بلا کے دشت میں اک روز آئیں گے تیر
وہاں حسین کی میّت اٹھائیں گے تیر
Special Thanks to Zeeshan Zaidi for short biography
MARASI E KHABEER LAKHNAWI
BAS BARA IMAMON MAIN YEHI CHAR ALI HAIN
FIRDOUS KI HAWA MERE BAGH E SUKHUN MAIN HAI
GHAZA ROYE MAZAMEEN HAI SADAQAT MERI
HAFT AINA GARDON MAIN JELA KIS KI HAI
JANAB E KHIZR KARAIN SER E SABZA ZAR E HASAN
KHABAR KUSHA E NAZM HAI TEGH E ZUBAN MERI
MAMOORA E IRFANE KHUDA SEENA HAI MERA
PHIR AAYI FASL E BAHARI KHULA HAI BAB E SUKHUN
PHIR MADHA SERA BAB E SUKHUN KHOL RHA HAI
SAQI BAHAR AAYI HAI REHMAT LIYE HOYE
TAQWA NAHIN TO NAKHL E UMR MAIN ASAR KAHAN
ZAMANA BADKAY TABIAT BADAL NAHIN SAKTI
ZULMAT E DAULAT E DUNYA E DANI FANI HAI
TOTAL MARSIYAS = 14