★ کلیم آل عبا سیّد شاہد نقوی ★
کلیم ِ آل عبا سیّد شاہدؔ نقوی
سید شاہد نقوی پاکستان کے بہت بڑے شاعر اور مرثیہ نگار تھے ۔ شاہد نقوی نے کئ مرثیے، قطعات ، رباعیات ، سلام اور نوحے لکھے ۔ زیارت ناحیہ کا ترجمہ بھی کیا ۔ یقینا جہاں جہاں ادب پسند حضرات ہیں ان کا مرحوم سے دلی ربط اور لگاؤ ہے ۔ انہوں نے اپنے گھر میں مرثیوں کی مجالس کا عشرہ شروع کروایا جو اب بھی جاری ہے ۔ بلاشبہ جدید مرثیہ شاہد نقوی کے تذکرے کے بغیر ادھورا ہے.
“گھر پر مِرے ، عزائے شہیداں ہے اِن دِنوں
اللّٰہ ! سَیَّدہ (ص) مِری مہماں ہیں اِن دِنوں”
شاہد نقوی نے شاہکار مرثیے کہے ہیں. شاہد نقوی کے ابتدائی مرثیوں پر جوش اور سید آل ِ رضا کے اثرات بڑے گہرے تھے اور وہ اثرات اس حد تک تھے کہ اگر ایک مرثیہ جوش کے اثرات کے تحت ہے تو دوسرا خالصتا” آل ِ رضا کے اسلوب کلام کی نمائندگی کرتا ہے
نفس ِ نبیۖ ، وصی ِ پیمبرﷺ علیؑ کا نام
حیدرؑ ، ابو ترابؑ ، غضنفر ، علیؑ کا نام
شیر ِ خدا ، کنندہِ خیبر علیؑ کا نام
شکر ِ خدا کہ ہے مرے لب پر علیؑ کا نام
وہ کیا ڈرے گا جس کے ہوں مشکل کشا علیؑ
آجائیں جتنے غم ہیں ، میں کہتا ہوں یا علیؑ
تطہیر فاطمہؑ کی طبیعت کا نام ہے
اسلام شاہزادی کی سیرت کا نام ہے
ایمان صبر و شکر کی عادت کا نام ہے
زہرا ؑ کتاب ِ درد کی آیت کا نام ہے
غم میں سپر ہے فاتح ِ بدر و حنین کی
معیار ِ صبر یہ ہے کہ ماں ہے حسینؑ کی
سفیانیت ابھارتی جاتی تھی اپنا سر
ایماں کی صف میں ضم ہوئے جاتے تھے اہل ِ شر
دولت نے اپنا جال بچھایا تھا دین پر
ایسے میں تھا محافظ ِ ایماں بس ایک گھر
شعلے ٹھٹک گئے در ِ حیدرؑ کے سامنے
زہرا ؑ کھڑی تھی غیظ میں اس گھر کے سامنے
یہ بند دیکھیے کیا کہنے ہیں
خاموش دور ِ صلح ِ حسنؑ میں رہے حسینؑ
رنگ ِ فضا کو غور سے دیکھا کیے حسینؑ
کھل کر اٹھا نفاق تو گھر سے چلے حسینؑ
حجت ہوئی تمام تو میداں میں تھے حسینؑ
بیعت طلب تھا دشمن ِ دیں ، دیں پناہ سے
ُعزی’ خراج مانگ رہا تھا الہ’ سے
سیدہ زینبؑ کا جہاد
وہ جس نے کڑے وقت میں عترت کو سنبھالا
بیواؤں کی گرتی ہوئی ہمت کو سنبھالا
طوفاں کے تھپیڑوں میں قیادت کو سنبھالا
جلتے ہوئے خیمے میں امامت کو سنبھالا
قرآن کی تفسیر خدا ساز تھی زینبؑ
خاموشئ شبیر کی آواز تھی زینبؑ
یہ دین کی آواز تھی ایماں کی ضرورت
یہ آہ تھی پیغام ِ شہیداں کی ضرورت
شبیرؑ کو تھی اس دل ِ سوزاں کی ضرورت
تفسیر ہو جس طرح سے قرآں کی ضرورت
ایمان کی منھ بولتی تصویر تھی زینبؑ
شبیرؑ کا سر کٹتے ہی شبیر تھی زینبؑ
شاہد نقوی نے امامت کے متعلق غلط نظریات کی تصیح کے لئے طنز کا لہجہ اختیار کیا . اس بند میں امامت کے موضوع پر طنزیہ رنگ بھرپور ہے
کیا لوگ چاہتے ہیں انھیں رہنما کریں
جو لغزشوں سے حق قیادت ادا کریں
ایک اک قدم پہ لوگوں کے منہ کو تکا کریں
ہر موڑ پر یہ ڈر ہو کہ شاید خطا کریں
ہر شخص کانپتا رہے خوف دوام سے
خالق پناہ میں رکھے ایسے امام سے
ہونے لگے خدا کی مشیت میں بھی دخیل
اس قول کبریا میں بھی کرتے ہو قال و قیل
پہنچے گا ظالموں کو مرا حق نہ اے خلیل
کیا عصمت امام پہ کچھ کم ہے دلیل
عصمت ہر ایک زاویے سے رد ظلم ہے
کس کو نہیں یہ علم کہ کیا حد ظلم ہے
وہ جس کا انتخاب کریں سطح بیں عوام
اوروں کا ہو تو وہ ہمارا نہیں امام
ہے یہ تو خود ہی اپنی ہلاکت کا اہتمام
ہر گام مشتبہ جو رہبر ہو فکر خام
ایسا امام حق کی مشیت پہ طنز ہے
قرآں کا مضحکہ ہے رسالت پہ طنز ہے
اس کے بعد مرثیے کا وہ حصہ شروع ہوتا ہے جہاں سے امامت کے ذیل میں شاہد نقوی آئمہ کی خصوصیات یکجا کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ صحیح معنوں میں امام کون ہے
قرآں کو اعتماد ہو جس کی نگاہ پر
ایمان سے جھکے کے چلے جس کی راہ پر
امروز میں ہدایت فردا لئے ہوئے
قطرہ کنار فکر میں دریا لئے ہوئے
ذرہ نظر میں وسعت دریا لئے ہوئے
جو کچھ ہے کائنات میں تنہا لئے ہوئے
ہر جنبش نگاہ میں دل تولتا ہوا
نفس نبی خدا کی زباں بولتا ہوا
جس کی نگاہ وقت سے رفتار چھین لے
باغی نظر سے جرات پیکار چھین لے
منکر کے لب سے قدرت انکار چھین لے
دست اجل مروڑ کے تلوار چھین لے
گردش زمیں کی روک دے جو اک نگاہ سے
چاہے تو آفتاب پلٹ آے راہ سے
جس کے عمل سے چہرہ ایماں نکھر سکے
جو دین کی رگوں میں نیا خون بھر سکے
منبر پہ اداے سلونی جو کر سکے
جس کی نگاہ کون و مکاں سے گزر سکے
جس کی زباں ملک کے لئے بھی دلیل ہو
کہہ دے جو اعتماد سے تم جبرئیل ہو
محترم و مکرم تحت اللفظ خواں و محقق مرثیہ جناب فرحان رضا کے بقول : شاہد نقوی صاحب نے اپنے ایک مرثیے میں عجیب دل گداز انداز میں تاریخ اسلام کی عظیم ماؤں کا ذکر کیا ہے. مادر موسیٰ، حضرت ہاجرہ، حضرت مریم، حضرت آمنہ، حضرت فاطمہ بنت اسد، حضرت خدیجہ، حضرت فاطمہ زہرا کے ذکر کے بعد کربلا کی شیر دل ماؤں کا ذکر کیا ہے جنہوں نے اولاد سے زیادہ اولاد نبی پر اپنے بچوں کو قربان کردیا. شاہد نقوی صاحب نے ایسے بیتین لکھی ہیں کہ آپ پڑھتے جائیں اور سوچتے جائیں”
جسمیں رہ رضا سے گزرنے کے واسطے
بچوں کو پالاجاتا تھا مرنے کے واسطے
اور
بچے شہید ہوتے تھے جب رزم گاہ میں
یہ ہنس کےسرجھکاتی تھی شکر ِ الہ میں
یہ بند دیکھئے
بعد ِ بتولؑ زینبؑ ِ مضطر تھی سیدہ
قاسمؑ حسنؑ تھے،بیوہ ِ شبرؑ تھی سیدہ
اکبرؑ کےحق میں لیلی ِ بے پر تھی سیدہ
اپنی جگہ پہ مادر ِ اصغرؑ تھی سیدہ
سب سیدہ تھیں سبکا یہی اک اصول تھا
بہر ِحسینؑ داغ ِ پسر بھی قبول تھا
کربلا میں موجود ہر ماں کا جوش و جزبہ شاہد صاحب نے جس طرح نظم کیا ہے اسکی جتنی بھی داد دی جائے کم ہے.
زینبؑ تھی لاڈلوں کےبرابر کھڑی ہوئی
قاسمؑ کے پاس بیوہ ِ شبرؑ کھڑی ہوئی
لیلی قریب ِ بستر ِ اکبر کھڑی ہوئی
ام رباب جھولے سے لگ کر کھڑی ہوئی
گہری نظر سے ہوتا تھا فدیوں کا امتحاں
سوسوطرح سے لیتی تھی بچوں کاامتحاں
ان تمام ماؤں کا ذکر کرنے کے بعد عجیب انداز میں حضرت ام البنین کا تذکرہ کیا
یہ تھیں وہ مائیں جن پہ تھازہرا کواعتماد
سب سیدہ سرشت تھیں سب فاطمہ نہاد
جاری تھا ہر محاز پر ان ماؤں کا جہاد
تازہ ہوئی مدینے میں پھر کربلا کی یاد
جب ذکر _ درد ہوتا تھا ام ا لبنین سے
اٹھتی تھی آنچ شہر_ نبی کی زمین سے
قافلہ جب واپس آیا تو
سجاد سے وہ مادر عبّاس کا سوال
کیسا لڑا حسین کی خاطرعلی کا لال
عابدکاسر جھکا کے یہ کہنابصد ملال
کیا پوچھتی ہیں آپ اسیر وفا کا حال
ازن_ وغا ملا ہی کہاں اس دلیر کو
زنجیر سے حسین نے جکڑا تھا شیر کو
حضرت عبّاس کی شہادت کی خبر سنکر
ام ا لبنین نے جو سنا قصّہ پسر
بےساختہ جھکادیاشکرخدامیں سر
آئیں کس اعتماد سے زہرا کی قبر پر
فرمایا شاہز ا دی سنی آپ نے خبر
کہتے ہیں سب غلام بڑا کام کر گیا
بی بی میں سرخرو ہوئی عبّاس مر گیا
مرثیہ 70 بند کا ہے اور آخری بند ہم سب کے دل کی آواز ہے.
ام البنین اکیلی نہیں آپ تلخ کام
اسمجلس_عزامیںبھی بیٹھےہیں کچھ غلام
اشکوں سے لکھ رہے ہیں شہ کربلا کا نام
کر لیجئے انھیں بھی شریک_غم_ امام
بی بی ہمارے اشکوں کا ہدیہ قبول ہو
اے سیدہ حسین کا پرسہ قبول ہو
شاہد صاحب کی پہلی مرثیوں کی کتاب پر عالجناب مولانا محمد مصطفیٰ جوہر صاحب اور سید آل رضا جیسی ہستیوں نے تبصرہ تحریر فرمایا تھا. بقول برادر فرحان رضا کے “شاہد صاحب سے میں نے دریافت کیا کہ انھیں سب سے زیادہ اپنا کون سا مرثیہ پسند ہے تو کہنے لگے قاب قوسین کے موضوع پر لکھا ہوا مرثیہ سب سے زیادہ پسند آیا”.
صرف مرثیوں ، سلام پر شاہد نقوی کی عظمت ِ کلام ختم نہیں ہوئی. سید شاہد نقوی شام غریباں پر ایک ایسا شہرہ آفاق نوحہ لکھ گئے جو قیامت ان کو حیات جاودانی دے گیا . ان کا یہ نوحہ جب تک پڑھا جاۓ گا ان کا نام زندہ رہے گا. مرحوم سوز خواں و شاعر اہلبیت جناب عزت لکھنوی نے جس درد میں ڈوب کر 70s کی دہائی میں یہ نوحہ پڑھا تو وہ بھی ہمیشہ کے لیے امر ہو گئے. راقم الحروف بھی یہ نوحہ ہر سال برطانیہ میں مقامی امام بارگاہ میں پڑھنے کا شرف حاصل کرتا ہے . کہاں نہیں سنائی دے رہی یہ آواز شام غریباں کے وقت !!!
وہ کربلا و شام غریباں وہ تیرگی
وہ زینب ِ حزیں وہ حفاظت خیام کی
آیا وہ اک سوار قریب ِ خیام ِ شاہ
بیٹی علی کی غیض میں سوئے فرس بڑھی
الٹی نقاب چہرے سے اپنے سوار نے
پیش ِ نگاہ زینب ِ مظلوم تھے علی
ہر چند صا برہ تھی بہت بنت ِ فاطمہ
بے ساختہ لبوں پہ فریاد آگئی
زینب نے کہا باپ کے قدموں سے لپٹ کر
اب آئے ہو بابا
جب لٹ گیا پردیس میں اماں کا بھرا گھر
اب آئے ہو بابا
بابا اگر آنا ہی تھا خالق کی رضا سے
اس وقت نہ آئے
جب خاک پہ دم توڑ رہا تھا میرا اکبر
اب آئے ہو بابا
کٹ کٹ کے گرے نہر پہ جب بازوئے عباس
اور کوئی نہ تھا پاس
اس وقت صدا آپ کو دیتا تھا دلاور
اب آئے ہو بابا
جب فرش ِ زمین بام و فلک لرزہ فشاں تھے
اس وقت کہاں تھے
جب باپ کے چلو میں تھا خون ِ علی اصغر
اب آئے ہو بابا
جب بھائی کا سر کٹتا تھا میں دیکھ رہی تھی
حضرت کو صدا دی
سر کھولے ہوئی روتی تھی میں خیمے کے در پر
اب آئے ہو بابا
جب لوگ بچا لے گئے لاشے شہدائ کے
حق اپنا جتا کر
بس اک تن ِ شبیر تھا پامالی کی زد پر
اب آئے ہو بابا
جب بالی سکینہ کے گوہر چھینے گئے تھے
لگتے تھے طمانچے
حسرت دے مجھے دیکھتی تھی بانوئے مضطر
اب آئے ہو بابا
اک رات کے مہماں ہیں پھر قید ِ سلاسل
اب سخت ہے منزل
بازار میں ہم صبح کو جائیں گے کھلے سر
اب آئے ہو بابا
کیا آپ نے فردوس سے یہ دیکھا نہ ہو گا
اک حشر بپا تھا
جب پشت سے بیمار کی کھینچا گیا بستر
اب آئے ہو بابا
شاہد ُرخ ِ حیدر پہ بکھر جاتے تھے آنسو
جب کھول کے گیسو
چلاتی تھی زینب میرے بابا میری چادر
اب آئے ہو بابا
ترتیب و انتخاب و پیشکش : ذیشان زیدی
Special Thanks to Zeeshan Zaidi for this Intro
MARASI E SHAHID NAQVI
INSANIAT SHAOOR E SADAQAT KA NAM HAI
SIFARAT E KUBRA – SHAHID NAQVI
TOTAL MARSIYAS = 26
Total Page Visits: 147 - Today Page Visits: 3