★ علامہ جمیل مظہری ★
جدید اردو شاعری میں جمیل مظہری کے نام کو نظر انداز کرنا گلدستہ کے اس پھول کو ہٹا دینے کے مانند ہے جس سے گلدستہ کی مرکزی حسن ہی ختم ہو جاتا ہے۔ گزشتہ محرم محترم علامہ عقیل الغروی سے ان کا ایک شعر سنا جس پر بے انتہا رقّت ہوئ
حاصل طاعت کونین ہے وہ اک نماز
جو نہ ادا ہوئ اور نہ قضا ہوئ
جو نہ ادا ہوئ اور نہ قضا ہوئ
علامہ جمیل مظہری جن کا اصل نام سید کاظم علی تھا۔ پٹنہ کے محلہ مغل پورہ میں پیدا ہوئے تھے۔ علامہ جمیل مظہری کو ساری زندگی اس بات کا قلق رہا کہ انہیں نہیں پہچانا گیا اور ان کی شناخت کوئی نہیں کر سکا ۔ اسی لئے انہوں نے خود ایک شعر میں کہا
اسے بلاﺅ زباں داں جو مظہری کا ہو
مگر ہے شرط وہ اکیسویں صدی کا ہو
مگر ہے شرط وہ اکیسویں صدی کا ہو
طفلی میں ہی شاعری کا آغاز کیا اور اس ماحول میں پرورش پائی جہاں مجالسِ عزا کا اہتمام ہوتا تھا۔ ا س بات کا اعتراف جمیل مظہری نے اپنے سوانحی مضمون ’’غبارِ کارواں‘‘ میں بھی کیا ہے۔
’’میرے کان میں جو شاعری کی پہلی آواز گئی وہ انیسؔ کے مراثی کے بند تھے جنہیں میرے والدِ محترم گنگنایا کرتے تھے۔ او ران کی یہی گنگناہٹ میرے لئے لوری کا کام کرتی تھی۔ جب گہوارے سے اُتر کر پاؤں پاؤں چلنے لگا تو آدمیوں کا پہلا اجتماع جو میں نے دیکھا تو وہ محرم کی مجلسیں تھیں۔ جن میں میرے اباّ مرحوم میر انیسؔ کا مرثیہ پڑھا کرتے تھے۔ میں مجلس سے گھر آکر اُن کی نقل کرتا اور اپنی توتلی زبان میں انیسؔ کے مصرعے دہراتا۔ جب سات۔ آٹھ سال کی عمر ہوئی تو والد نے ایک سلام رٹوا کر منبر پر پہنچا دیا۔ اُس وقت سے عنفوانِ شباب تک برابر محرم میں مرثیہ خوانی کرتا رہا۔ اور چودہ سال کی عمر میں میری شاعری کی ابتدا غز.ل سے نہیں بلکہ سلام سے ہوئی جس میں کچھ اشعار میرے او رکچھ والد مرحوم کے ہوتے۔ شاید ذوقِ سخن کی اسی ابتدائی تربیت نے مجھے میری شاعری کے عہد شباب میں مرثیے کہلوائے۔‘‘ (کلیاتِ جمیل مظہری، حصہ دوم،
ماہِ عزا کے موقع پر جارج پنجم کی سلور جبلی پر چراغاں کا اہتمام کیا گیا، جس پر کوئی ردِعمل یا اختلاف ظاہر نہ ہوا۔
آج بھی جب کہ ہے ماضی سے کہیں بہتر حال
حاکمِ شہر کے بگڑے ہوئے تیور کا خیال
کتنے ایمانوں کو کرسکتا ہے دم بھر میں نڈھال
جوبلی ماہِ عزا میں ہوئی خود اِس کی مثال
کیوں جہاں ہو علمِ شاہِ شہیداں اے قوم
جوبلی میں اُسی پھاٹک پہ چراغاں اے قوم؟
حاکمِ شہر کے بگڑے ہوئے تیور کا خیال
کتنے ایمانوں کو کرسکتا ہے دم بھر میں نڈھال
جوبلی ماہِ عزا میں ہوئی خود اِس کی مثال
کیوں جہاں ہو علمِ شاہِ شہیداں اے قوم
جوبلی میں اُسی پھاٹک پہ چراغاں اے قوم؟
حضرت عون ومحمد کی دلیری کی مثال
نیمچے ان کے ہلالی تھے کہ ابروئے اجل
کاٹ کر رکھ دیا دو بچوں نے سارا جنگل
دو بچھیڑوں نے مچا دی تھی صفوں میں ہلچل
صفِ اوّل صفِ آخر صفِ آخر اوّل
پھینک کر بارِ غلط پشت سے گھوڑے بھاگے
گھوڑے پیچھے رہے اس طرح بھگوڑے بھاگے
کاٹ کر رکھ دیا دو بچوں نے سارا جنگل
دو بچھیڑوں نے مچا دی تھی صفوں میں ہلچل
صفِ اوّل صفِ آخر صفِ آخر اوّل
پھینک کر بارِ غلط پشت سے گھوڑے بھاگے
گھوڑے پیچھے رہے اس طرح بھگوڑے بھاگے
Special Thanks to Zeeshan Zaidi, UK for this short biography
MARASI E ALLAMA JAMEEL MAZHARI
AAJ DUNYA MAIN NA SHAB HAI NA SAWERA HAI JAMEEL
BAKHUDA BANA E MOROUSIYE MAULA HOON MAIN
ISHQ KYA HAI GHAM E HASTI SE REHA HO JANA
JUNBISH SE MERE KHAMA E AFSON TARAZ KI
KHAM BA KHAM KAKAL E HASTI KA FASANA HAI AJEEB
KHOLA UROOS E SHAB NE JO ZULF E DARAZ KO
KYON WAFA MATAM E ARBAB E WAFA HO KE NA HO
MAIN HOON MASIH SUKHUN ESA ZZBAN E SUKHUN
QURBAN HAIN GARD E RAH E SAFAR KIS SAWAR PAR
REHBARI KARTI HAI MAQSAD KI ISHAAT KYONKAR
SHAYARI BEHR E MUAFI KA TALATAM HAI JAMEEL
TOTAL MARSIYAS = 11
Total Page Visits: 334 - Today Page Visits: 6