ڈاکٹر ہلال نقوی
تعارفِ خاندان:
سید ہلال رضا نقوی 18 فروری 1950 کو راولپنڈی میں پیدا ہوئے ۔والد کا نام سید مزمل حسین نقوی تھا ۔والدہ کا نام سیدہ مناظرہ خاتون تھا ۔ ہلال نقوی اپنے نو بہن بھائیوں میں پانچویں نمبر پر ہیں ۔ باقی بہن بھائیوں کے نام علی الترتیب یہ ہیں ۔سید اقبال رضا نقوی ، سیدہ عروس فاطمہ نقوی ، سید افضال رضا نقوی ، سید کمال رضا نقوی ، سیدہ فاطمہ نقوی ، سیدہ گل رخ فاطمہ ، سیدہ ماہ رخ فاطمہ ، سیدہ نرگس فاطمہ ۔
ڈاکٹر ہلال نقوی کہ اہلیہ نسرین ہلال صاحبہ ایک بہت شفیق اورملنسار شخصیت تھیں ۔ انہوں نے ایم اے(اردو ادب )اور بی ایڈ کیا ہوا تھا۔ وہ کراچی کے ایک گورنمنٹ اسکول میں پڑھاتی تھیں ۔افسوس کہ زندگی نے وفا نہ کی اور جون 2014 کو وہ مختصر علالت کے بعد وفات پا گئیں ۔ ڈاکٹر ہلال نقوی کی اولاد میں ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہے ۔ علی دانیال نے آکسفورڈ یونیورسٹی سے کمپیوٹر سائنس میں ماسٹر کیا ہے ۔اور کنیڈا میں مقیم ہیں ۔ علیزہ بتول نے کراچی یونیورسٹی سے ایم اے انگلش میں فرسٹ کلاس ، فرسٹ پوزیشن حاصل کی تھی ۔اور آج کل کیلیڈونیا کالج آف انجینئیرنگ مسقط سے وابستہ ہیں ۔ ہلال نقوی صاحب کی اولاد کا تذکرہ تب تک نامکمل رہے گا جب تک ان کے ایک نواسے اسد علی اور دو بہت پیاری پوتیوں سکینہ علی اور زارا علی کا تذکرہ نہ کیا جائے ۔یہ تینوں بچے بھی ڈاکٹر ہلال نقوی کی زندگی کا بہت اہم حصہ ہیں ۔اور ان کی محبت و شفقت میں پروان پا رہے ہیں ۔خدا انکے سب گھرانے کوشاد آباد اور اپنی حفظ و امان میں رکھے ۔آمین
ڈاکٹر ہلال نقوی کے والد جی ایچ کیو راولپنڈی میں ملازم تھے ۔ان کا تعلق امروہہ سے تھا ، یہ وہی امروہہ ہے جو صادقین ، رئیس امروہوی ، مصحفی امروہوی ، جون ایلیا ، نسیم امروہوی جیسے جواہر کی سرزمین تھا ۔ڈاکٹر ہلال نقوی کے والد نسیم امروہوی صاحب کے والد کے چچا زاد بھائی تھے ۔ رئیس امروہوی اور جون ایلیا سے بھی خاندانی قربت ہے۔ ادبیاتِ فارسی کے نامور استاد ڈاکٹر علی رضا نقوی بھی اسی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں ۔ لہذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ کہ امروہہ کے اس خانوادے نے ادبیات کے حوالے سے بہت نامور شخصیات کو جنم دیا ہے ۔
حالات زند گی:
ڈاکٹر ہلال نقوی راولپنڈی میں پیدا ہوئے ۔اور سات سال کی عمر میں کراچی آ گئے۔ اور یہیں تعلیمی منازل کراچی میں طے کیں۔ راجہ صاحب محمود آباد کے قائم کردہ کالج ، سراج الدولہ کالج کراچی سے بی اے کیا۔ اور1973 میں جامعہ کراچی سے اردو ادب میں ایم اے کیا۔ ڈاکٹر ہلال نقوی نے 1985 میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ انکا پی ایچ ڈی کا مقالہ بیسویں صدی اور جدید مرثیہ کے عنوان سے تھا۔ایک ہزار صفحات پر مبنی یہ مقالہ محمدی ٹرسٹ ، لندن نے 1994 میں شائع کیا ۔
ڈاکٹر ہلال نقوی نے 1974 سے درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا اور ان کی تعیناتی جن مختلف کالجز میں بطور استاد شعبہ اردو کے رہی۔ ان میں گورنمنٹ کالج گھوٹکی سندھ ، گورنمنٹ سراج الدولہ کالج کراچی ، گورنمنٹ اسلامیہ کالج کراچی ، حامد بدایونی گورنمنٹ کالج کراچی اور گورنمنٹ کالج گلشن اقبال کراچی شامل ہیں۔وہ گورنمنٹ ڈگری کالج ، گلشن اقبال کراچی میں شعبہ اردو کے سربراہ بھی رہے ہیں ۔ اب جامعہ کراچی کے مطالعہ پاکستان کے شعبہ میں وزٹنگ پروفیسر کی خدمات پرمامور ہیں۔ نیز اردو میں ایم فل اور پی ایچ ڈی کے طلبا کی رہنمائی اور نگرانی بھی فرماتے ہیں۔
ڈاکٹر ہلال نقوی رثائی ادب اور دیگر ادبی موضوعات پر لیکچرز کے لیے اور بالخصوص مرثیہ پیش کرنے کے لیئے ناروے ، اوسلو ، کنیڈا ، عرب امارات ، انڈیا اور دیگرکئی ممالک میں بھی بارہا مدعو کیئے جا چکے ہیں ۔
آغازِ شاعری:
شاعری کا آغاز 1967 میں غزل گوئی سے ہوا۔ اسکے بعد نظم کی طرف توجہ رہی۔ البتہ وہ بنیادی طور پر نظم کے شاعر ہیں۔ زیادہ شہرت ان کو نئی طرز کے مرثیوں کے سبب ملی ، جن میں انہوں نے مسدس کے تیسرے مصرعے کو غیر مقید کر دیا ۔اور اسکا بہت چرچا رہا
ڈاکٹر ہلال نقوی جدید مرثیہ نگاری کے بہت معتبر شاعروں میں شمار ہوتے ہیں ۔ جوش ملیح آبادی کے مرثیے سن کر مرثیہ گوئی کی جانب آئے اور 1970 میں پہلا مرثیہ کہا۔ جب وہ بی اے کے طالبِ علم تھے۔ اور جوش ملیح آبادی سے اصلاح لی ۔ جوش صاحب نے اپنے ایک خط میں ان کو اپنا شاگردِ اولین لکھا ہے ۔ ان کے علاوہ ڈاکٹر ہلال نقوی نے مرثیہ میں جناب نسیم امروہوی کی بھی شاگردی اختیار کی۔ مرثیئے کے علاوہ انہوں نے غزل ، نظم ، رباعیات اور آزاد نظموں پر بھی طبع آزمائی کی۔ ڈاکٹر ہلال نقوی جوش کی تمام قلمی نگارشات بشمول فنِ مرثیہ کے بہترین ناقدین میں سے ہیں اور وہ اس موضوع پر اب تک چھ کتب لکھ چکے ہیں۔
تصانیف
جدید بیاضِ مرثیہ 2012
نسیم امروہوی کے مرثیے 2012
ڈاکٹر یاور عباس کے مرثیے 2012
جوش ملیح آبادی
یادوں کی برات کا قلمی نسخہ
صابر تھاریانی کے گجراتی قطعات
چشمِ نم 1970
گلدستہِ اطہر پر ایک نظر 1977
جدید مرثیئے کے تین معمار 1977
امانتِ غم ( باقر امانت خانی کے مرثیے ) 1982
مقتل و مشعل (1976 )
پسِ تاریخ ( ڈاکٹر ہلال کا مرثیہ ) 1982
جمیل مظہری کے مرثیئے 1988
عرفانیاتِ جوش 1991 / 2011
مثنوی آب و سراب ( جمیل مظہری ) 1988
ارمغانِ نسیم (مقالات ) 1992
جوش ملیح آبادی کی نادر و غیر مطبوعہ تحریریں 1992
مسدس فریاد و جوابِ فریاد ( جمیل مظہری ) 1993
اذانِ مقتل ( ڈاکٹر ہلال کے مرثیے ) 1993
بیسویں صدی اور جدید مرثیہ ( مقالہ )1994
بیسویں صدی اور جدید مرثیہ ( مقالہ )1994
جوش ملیح آبادی ، شخصیت و فن 2007
جوش کے انقلابی مرثیئے 2010
اوراقِ جوش 2010
مرثیئے کی نایاب آوازیں 2011
انتقادیاتِ جوش 2017
انگاروں کے ہاتھ -نظموں اور غزلوں کا مجموعہ : منتظرِ اشاعت ہے
ان تصانیف کے علاوہ ڈاکٹر ہلال نقوی نے اردو ادب میں مرثیہ کے حوالے سے پیلا معتبر ادبی رسالہ” رثائی ادب ”کے نام سے ایک جاری کیا ۔ اب تک اس کے چھتیس شمارے شائع ہو چکے ہیں۔ اور ان میں بارہ بارہ سو صفحات کے انیس و دبیر نمبر بھی مرتب کیئے گئے ہیں۔
نیز اردو شاعروں میں اب تک غالب اور اقبال کے نام سے ہی باقاعدہ رسالے جاری ہوئے تھے۔ ڈاکٹر ہلال نقوی نے جوش شناسی کے عنوان سے باقاعدہ رسالہ جاری کیا ہے۔ جو صرف جوش ملیح آبادی کی تحریروں اور ان سے متعلق تحقیقات پر مشتمل ہوتا ہے۔ اب تک اس کے سات شمارے آ چکے ہیں۔ جوش ملیح آبادی کے ناقدین اس بات کے معترف ہیں کہ جوش سے متعلق ڈاکٹر ہلال نقوی کی مسلسل تحقیق و تحریر کے باعث ان کا نام برصغیر میں جوش ملیح آبادی پر تحقیق کے حوالے سے اٹھارتی کا درجہ رکھتا ہے۔
تنقید و آرا
اس مسدس میں مسدسِ حالی کی طرح عصر، جدید پر تنقید کی گئی ہے۔ جو حالی کی سمجھ سے بہت دور ہے۔اور جن کی مثال اقبال کے ایسے مسدس میں ملتی ہے جیسے شکوہ و جوابِ شکوہ
جوش ملیح آبادی نے ڈاکٹر ہلال نقوی کے مرثیہ میں انقلابی اور آفاقی پیغام کے ابلاغ کو ان الفاظ میں سراہا ہے۔ ۔ ” میں اس صنفِ سخن یعنی مرثیئے کے میدان میں ان کی روایت شکنی کی داد دیتا ہوں۔انہوں نے لوگوں کو رلایا نہیں بلکہ جگایا ہے۔ حسین (ع) ان کے ہاں ایک مخصوص فرقے یا گروہ کے رہبر نہیں بلکہ پوری کائنات کے رہنما ہیں۔“
کیفی اعظمی صاحب نے رثائیات کے تحقیقی امور میں ڈاکٹر ہلال نقوی کو دوسرا شبلی قرار دیا ہے ۔ بلاشبہ اردو دنیا میں جوش شناسی میں اس وقت ڈاکٹر ہلال نقوی اٹھارٹی کا درجہ رکھتے ہیں ۔
Special Thanks to Irum Naqvi for biography
MARASI E JANAB HILAL NAQVI
TOTAL MARSIYAS = 5