NAZEER BAQRI

نظیر باقری

’بیڑیاں روئیں کبھی پاوں کے چھالے روئے “

کے خالق

انڈیا سے تعلق رکھنے والے معروف شاعر و ذاکرِ اہلبیت #نظیر_باقری صاحب

 سے گفتگو۔۔۔ عباس نقوی

۔۔۔۔۔۔۔

یوں تو انجمن رضائے حسینی کے لاتعداد کلام عوام میں پسند کئے گئے لیکن آج ہم بات کریں گے انجمن کے سابقہ و سینئرصاحب بیاض شجاع حیدر کے پڑھے ہوئے ایک لازوال کلام کی۔۔۔ یہ  انڈیا کے معروف شاعر اہلبیتؑ جناب نظیر باقری صاحب کا کلام ہے۔۔۔ ع

بیڑیاں روئیں کبھی پاوں کے چھالے روئے

کیسے قیدی تھے جنہیں قید کے تالے روئے

جب سنا مارا گیا پانی پلانے والا

کانپتے ہاتھوں میں سوکھے ہوئے پیالے روئے

جانے کیا سوچ کے شبیرؑ بہت دیر تلک

کر کے بے شیر کو تربت کے حوالے روئے

بھولنے والے تجھے کیسے بتائے کوئی

کس قدر تجھ کو ترے چاہنے والے روئے

بے کسی باپ کو لے آئی ہے کس منزل پر

برچھی بیٹے کے کلیجہ سے نکالے روئے

ہائے افسوس کہ جس وقت جلے تھے خیمے

دیر تک شام غریباں کو اجالے روئے

پیاسے جسموں میں یہ پیوست ہوئے جب بھی کبھی

دیکھ کر سوکھی رگیں برچھیاں بھالے روئے

بھائی کی لاش ہے اور شور یتیموں کا نظیر

اک بہن ایسے میں بچوں کو سنبھالے روئے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نظیر عباس باقری صاحب ہندوستان کے صوبہ اتر پردیش کے مشہور ضلع مرادآباد۔۔۔اور اس کی مشہور تحصیل سنبھل ہے، سنبھل اور امروہے کے درمیان چھوٹی سی سادات کی بستی ہے جس کا نام نعمت پور المعروف اکرونیا سادات ہے۔۔۔میں پیدا ہوئے۔آپ کا حسبی و نسبی تعلق بنیادی طور پر ایک زمیندار گھرانے سے ہے، دادا سید مہدی حسن زمیندارتھے، ذریعہ معاش کاشتکاری تھا۔

نظیر باقری صاحب انڈیا کے مشہور و معروف شاعر و ذاکرِ اہلبیت ؑہیں، لاتعداد کتب کے مصنف ہیں، ۔۔۔ ہنسی (مرثیہ)، دستِ کائنات (مرثیہ)، پیاسے دریا (نوحہ و سلام)فرازِ صبر (منقبت و مسدس، سوگوار (نوحہ)، اعتماد (غزل)، زنجیرِ نور (مناقب و قصائد) اور نجومِ دَشت (نوحہ، مناقب، قصائد ہو سلام) ان کے مجموعہائے کلام ہیں۔ پہلا مرثیہ 1980ءمیں شائع ہوا۔۔۔نظیر باقری صاحب فرماتے ہیں کہ۔۔۔”لکھنو  ¿ یونیورسٹی میں تعلیم ہوئی، لکھنو کو مَیں اپنا تعلیمی وطن تسلیم کرتا ہوں اور امروہہ کا جہاں تک تعلق ہے۔۔۔ امروہہ مصحفی کا شہر ہے اور وہ میرے والد کی بھی درسگاہ رہ چکی تھی۔۔۔، امروہہ میں بھی مجھے شرف حاصل ہے ، پہلے اس کا نام تھا بگلہ اسکول، مڈل تک تھا اس کے پہلے ہیڈ ماسٹر بھی میری ہی بستی کے تھے۔۔ میرے والد کے احباب مرحوم رئیس امروہوی اور کمال امروہوی صاحبان تھے اور یہاں پر ایک شخصیت پروفیسر اختر رضا صاحب بھی رہتے تھے۔۔۔ یہ سب لوگ وہاں پر پڑھتے تھے مجھے بھی شرف حاصل رہا ایک دو سال کا۔غرض غزلوں کا سلسلہ جاری رہا، ماحول گھر کا یہ تھا کہ غزل کے پلیٹ فارم پر ہمیں اپنے ظہور کی بھی اجازت نہیں تھی۔۔۔ لیکن ہم نے بس نوحے کہنے شروع کئے۔۔ نوحہ اور سلام مشکل صنف ہیں، اس کے اندر اسلامی تاریخ، اسلامی معلومات اور حفظِ مراتب کا عمل دخل ہے۔

٭ شاعری کے بارے میں کچھ فرمائیے؟؟

یہ تو پتہ نہیں کہ شاعری کب شروع ہوئی لیکن ہاں میرا مجھ سے۔۔۔ بحیثیت شاعر پہلا تعارف غالباً 1964ءسے ہوا تھا اس سے قبل دوستوں کی محفل میں شعر و شاعری تک بندی تک محدود تھی، البتہ چونکہ بچپن سے مَیں نوحہ پڑھتا تھا ، والد سوزخوان تھے ا ور میرا اپنا جو تعلق خود سے ہوا اس کے پسِ پشت ایک واقعہ ہے کہ ہمارے ایک پھوپھا مرحوم اکبر حسین صاحب بڑی مذہبی شخصیت تھے جنہوں نے مذہبی دنیا میں نقد و نظر سے پہچان حاصل کی۔۔۔ ”شہیدِ انسانیت“۔۔۔ علامہ نقی نقوی (نقن صاحب) کی تالیف پر تنقیدی تبصرہ تحریر کیا، اہم کتاب ہے اپنے عہد کی۔۔۔ وہ اکبر حسین صاحب دلّی میں کسی طرَحی مشاعرے کی روداد بیان کر رہے تھے۔۔ طرَح تھی۔۔۔ع

جب کبھی تازہ مزاروں پہ چراغاں کرنا

ایک شاعر جا کر شمع کے آگے پڑھنے بیٹھے اور مطلع پڑھا کہ۔۔۔ع

جب کبھی تازہ مزاروں پہ چراغاں کرنا

ایک ٹوٹی ہوئی تربت پہ بھی احساں کرنا

سب نے اپنے پرچے پھاڑ دیئے۔۔۔ اور مشاعرہ ختم ہو گیا۔۔ تو بس وہ لمحہ تھا کہ جب مَیں نے اس ماحول میں ایک شعر کہا۔۔۔ع

بعد مدت کے مَیں سویا ہوں غموں سے کہہ دو

اب کبھی آن کے مجھ کو نہ پریشاں کرنا

جب طرَحی مصرعہ پر شعر کہہ لیا تو مَیں اپنی نظر میں بھی مستند ہو گیا اور یہی میری زندگی کا پہلا شعر قرار پایا۔

*محترم نظیر باقری صاحب کی غزلوں کے چند اشعار پیش خدمت ہیں۔۔۔ع

اپنی آنکھوں کے سمندر میں اتر جانے دے

تیرا مجرم ہوں مجھے ڈوب کے مر جانے دے

اے نئے دوست میں سمجھوں گا تجھے بھی اپنا

پہلے ماضی کا کوئی زخم تو بھر جانے دے

زخم کتنے تری چاہت سے ملے ہیں مجھ کو

سوچتا ہوں کہ کہوں تجھ سے مگر جانے دے

آگ دنیا کی لگائی ہوئی بجھ جائے گی

کوئی آنسو مرے دامن پہ بکھر جانے دے

ساتھ چلنا ہے تو پھر چھوڑ دے ساری دنیا

چل نہ پائے تو مجھے لوٹ کے گھر جانے دے

زندگی میں نے اسے کیسے پرویا تھا نہ سوچ

ہار ٹوٹا ہے تو موتی بھی بکھر جانے دے

ان اندھیروں سے ہی سورج کبھی نکلے گا نظیرؔ

رات کے سائے ذرا اور نکھر جانے دے

ایک اور غزل۔۔۔ ع

یاد نہیں کیا کیا دیکھا تھا سارے منظر بھول گئے

اس کی گلیوں سے جب لوٹے اپنا بھی گھر بھول گئے

خوب گئے پردیس کے اپنے دیوار و در بھول گئے

شیش محل نے ایسا گھیرا مٹی کے گھر بھول گئے

تجھ کو بھی جب اپنی قسمیں اپنے وعدے یاد نہیں

ہم بھی اپنے خواب تری آنکھوں میں رکھ کر بھول گئے

مجھ کو جنھوں نے قتل کیا ہے کوئی انہیں بتلائے نظیرؔ

میری لاش کے پہلو میں وہ اپنا خنجر بھول گئ

٭ غزل کے اعتبار سے اپنے تشخص کے بارے میں مزید کچھ فرمائیے؟؟

غزل کا پہلا مشاعرہ مَیں نے 1968ءمیں پڑھا۔۔۔ جب 1971ءکا محرم نمودار ہوا، ہمارے استاد انور نواب صاحب تھے۔۔ ہم شجرہ ادب کے معاملے میں بھی خوش نصیب ہیں کہ دونوں میروں سے تعلق بنتا ہے، انور نواب کے جد اعلیٰ میر تقی میرکے شاگرد تھے۔۔۔ اور ان کے بعد کی نسل کے دادا امیر انیس کے شاگر د تھے اور ان کے شاگردوں میں ہمارا شمار ہے۔ غرض´۔۔۔ انور نواب صاحب نے کہا کہ محرم شروع ہو گیا بس۔۔۔ غزل وغیرہ بند کیجئے اور ایک مشہور مسالمہ ہوتا تھا، اس کے مصرعہ پر انہوں نے سلام کہنے کا حکم دیا۔۔ مصرعہ تھا۔۔ع

کرب و بلا ستم کا مکمل جواب ہے

اس طرح ہم نے پہلا سلام کہا۔۔۔، اس میں دو شعر ایسے تھے کہ ان دونوں موضوعات نے مسلسل آج تک میرا بہت ساتھ دیا ہے۔۔۔ ان کا کرم ہے، ایک موضوع مولاعباس علیہ السلام کا تھا اور ایک شہزادہ علی اصغر علیہ السلام کا تھا۔۔۔ مَیں نے مطلع کہا تھا۔۔۔ع

عباسؑ ہیں، فرات کی موجیں ہیں، آب ہے

یا تشنہ لب نظر میں خیالِ سراب ہے

پورا سلام تصوراتی تھا۔۔ شعوری طور پر معلومات تو تھیں لیکن ہم اس وقت تک ڈرتے تھے، ایک شعر شہزادہ علی اصغر علیہ السلام کے حال کا تھا، اس مشاعرے میں نہال لکھنوی، کمال لکھنوی، شارب لکھنوی، سالک لکھنوی، مظر لکھنوی تمام اساتذہ موجود تھے،سب سے بڑی دعائیں ملیں۔۔۔ ع

اصغرؑ نے مسکرا کے اُسے چاک کر دیا

اب حشر تک یزید کا منہ بے نقاب ہے

نوحہ خوانی اور سلام کہنے کی وجہ سے والد کی اجازت مل گئی ، غزلیں رکھی رہیں۔۔۔، غزلوں کا بہت ذخیرہ تھا لیکن ہم نے پھر مرثیہ بھی کہا۔

٭ جدید اور قدیم مرثیہ کی بحث کے بارے میں اپنے گرانقدر خیالات عطا کیجئے؟

مرثیہ مرثیہ مرثیہ اور جدید مرثیہ کی جو گفتگو ہوئی تو جدید مرثیہ کی جو شرح بیان کی جاتی تھی ہم اس سے اتفاق نہیں کرتے تھے اور اس کی وجہ یہ تھی کہ جوش نے خود کبھی اس کو مرثیہ نہیں کہا۔۔ بعد میں ان سے کہلوالیا گیا۔۔ یہ ایک الگ موضوع ہے لیکن جوش نے originallyاس کو مرثیہ نہیں کہا۔۔۔ بلکہ مسدّس کہا۔۔ اگرچہ جدید مرثیہ کسی اعتبار سے کہہ سکتے ہیں تو جہاں تک مرثیہ صنف کا تعلق ہے، کسی بھی صنف کا تعلق ہے۔۔ اس کے اندر تغیرات ہزاروں ہو سکتے ہیں لیکن اپنی اصل سے کبھی وہ الگ نہیں ہو سکتی تو مرثیہ کے معنی ہیں رِثا۔۔۔ جس کے معنی ہیں مرنے والے کے اوصاف بیان کرنا۔۔ اگر اس میں رثائیت نہیں ہے تو وہ مرثیہ نہیں ہے۔۔۔ کچھ اور ہے لیکن اگر اس کے اندر صرف رثائیت ہے تو وہ مرثیہ ہو سکتا ہے، میری اپنی منطق یہی ہے۔

اس موضوع پر میری ہلال بھائی (ہلال نقوی) سے بھی کافی گفتگو رہی ہے، مَیں آلِ رضامرحوم کو جدید مرثیہ کا بانی مانتا ہوں، انہوں نے نیا لہجہ دیا۔۔۔ لیکن انہوںنے مرثیہ کی بنیاد کو قائم رکھا۔۔۔ پھر مَیں نے بھی تجربہ کے طور پر مرثیہ کہا اور اس کا عنوان بھی رکھا۔۔ ہنسی۔۔۔ یعنی مرثیہ کی ضد ہے۔۔ اور ہنسی بھی مرثیہ شہزادہ علی اصغر علیہ السلام کے حال کا ہے، 80بند کہے تھے لیکن قصداً 72شامل کئے اور پورے التزام سے اس مرثیہ کو کہا گیا۔

مرثیہ کے سات جزو ہوتے ہیں۔۔۔ اس کے اندر ساتوں جزو موجود ہیں، پورے مرثیہ میں اس کا خیال رکھا ، مثلاً مرثیہ کا ایک جزو ہے آمد تو جب شاعر آمد تک پہنچتا ہے تو اس کا ایک پس منظر دکھاتے ہی ںشعرا کہ بیبیاں بین کر رہی ہیں کہ اب وہ چلے گئے، وہ چلے گئے۔۔۔ انہوں نے برچھی کھالی۔۔ انہوں نے تیر کھالیا، وہ بھی مارے گئے، وہ بھی مارے گئے اور اب ان کی باری ہے۔۔۔ لیکن مَیں نے پورے مرثیہ میں یہ بھی التزام رکھا کہ کسی دوسرے شہید کا کوئی تذکرہ نہیں ہے۔۔۔ اپنی پوری بات کو ایک بند میں کہہ دیا ہے۔۔ بس۔۔۔ مثلاً

تمام فوجِ حسینیؑ تو سو چکی رَن میں

زمین خون سے دامن بھگو چکی رَن میں

کمائی شاہؑ کی سب ختم ہو چکی رَن میں

ہر ایک چاند سی صورت بھی کھو چکی رَن میں

ہوئی ہے روشنی بانوؑ کے ماہ پارے کی

غبارِ شام میں آمد ہے اب ستارے کیٍ

پورا مرثیہ غزل کے لہجے میں ہے۔۔۔ اس کا مطلع ہے۔۔۔ع

ہنسی لبوں کے لئے اِک حسین زیور ہے

کہیں پہ پھول سے نازک ، کہیں پہ پتھر ہے

کہیں پہ طنز کا جلتا ہوا یہ خنجر ہے

یہ زندگی کا عجب دلفریب منظر ہے

جو مسکراتے ہوئے لب دکھائی دیتے ہیں

وہی حیات کا مطلب دکھائی دیتے ہیں

اس مرثیے میں اس بات کو ملحوظ رکھا ہے کہ اگر شیعہ پڑھیں تو اسے مرثیہ سمجھیں۔۔۔ غیر شیعہ پڑھیں تو جو چاہیں سمجھیں۔۔۔ اس میں شہادت کاپس منظر بیان کرنا ضروری ہے کہ پورے مرثیہ میں دو چیزیں ہیں۔۔۔ بچپن یا تبسم۔۔۔ تیسرا کوئی موضوع نہیں۔۔ کوئی تکرار نہیں۔۔ یعنی رجز میں بھی اگر شہزادے نے رجز بیان کیاہے تو اپنے باپ دادا کے بچپن کے ہی حوالے سے بیان کیا ہے۔۔ یہ ساری چیزیں قصداً کی ہیں کہ جس طرح دادا کی شہادت سجدے میں ہے، باپ کی شہادت سجدے میں ہے تو اسی طرح شہادت علی اصغر علیہ السلام بھی سجدے میں ہی کہی گئی ہے۔۔۔ روایت صرف اتنی ہے کہ بچہ باپ کے ہاتھوں پر تیر کھا کر منقلب ہو گیا۔۔ منقلب کے لئے منجد کہتی ہے کہ منقلب اس حالت کو کہتے ہیں جس حالت میں آدمی سجدہ کرتا ہے۔۔۔ع

بتا رہی تھی ہر اِک مقصدِ شہادت کو

بچا رہی تھی پیمبر کی اس امانت کو

برستے تیر وں میں شبیرؑ کی ریاضت کو

یہ کمسنی تھی جو بھولی نہیں عبادت کو

لگا جو تیر تو خَم کی جبینِ ناز اپنی

بنا کے باپ کے ہاتھوں کو جانماز اپنی

٭ جدید نوحے کے حوالے سے کچھ فرمائیے؟؟

نوحے کا جہاں تک تعلق ہے، نوحہ کے معنی رونے کے ہیں اور آنسووں کو زبان دینے کا نام بین کے ہیں۔۔ لیکن بنیادی طور پر نوحے کے معنی بین کرنے کے ہیں، اسی وجہ سے جنابِ نوحؑ چونکہ زندگی بھر روتے رہے اس لئے ان کو نوح سے ملقب کیا گیا۔۔ تو اب یہاں سے نوحے کی شرح ہو گئی۔۔۔ اب نوحے کو اگر ہم تجزیہ کریں گے اور تاریخ کو سامنے رکھ کر۔۔ ماضی کو سامنے رکھ کر اور نفسیاتِ بشری کو سامنے رکھ کر تو نوحہ صرف اور صرف دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔۔۔۔ ایک نوحہ وہ جو براہِ راست ہو ایک وہ جو بالتوصل ہو۔۔۔ براہِ راست نوحہ وہ ہے جس کے گھر حادثہ ہو رہا ہے جو وہ بیان کر رہا ہے وہ نوحہ ہے۔۔۔ ایک وہ نوحہ ہے جو سن رہا ہے یا دیکھ کر آیا ہے اور بیان کر رہا ہے۔۔۔ اس کے علاوہ تیسری نوحے کی کوئی صنف نہیں ہے۔۔۔ لیکن عہدِ حاضر نے ایک نئی صنف ایجاد کر لی ہے۔۔۔ بہر حال مَیں اسے نوحہ بھی نہیں کہہ سکتا اور کسی دوسری صنف میں شامل بھی نہیں کر سکتا۔۔۔اب مَیں منتظر ہوں کہ اس صنف کا کیا نام رکھا جائے گا۔۔ مجھے نہیں معلوم ، نوحہ تو وہی ہے اب عہدِ حاضر کی شاعری میں نوحہ اسی لئے گم ہو گیا کہ نہ تو لوگوں کو یہ معلوم ہے کہ نوحہ، سلام، منقبت اور قصیدہ میں فرق کیا ہے۔۔۔ میرا ایک شعر ہے۔۔۔ع

رَسائی ان کی رِثائی ادب میں ہونے لگی

جو منقبت کو بھی اکثر سلام بولتے ہیں

ایک مشاعری کا طَرحی مصرع تھا۔۔۔ع

صرف اک پھول نہیں سارا چمن زخمی ہے

احمد جونپوری نے طرَح پر شعر کہا۔۔۔ع

بین کے بدلے فضائل پہ ہے ماتم احمد

ذوق کے ہاتھوں ہر اِک صنف سخن زخمی ہے

نوحہ چونکہ بشری ضرورت ہے۔۔۔ بشری المیہ ہے۔۔ زندہ تو رہے گا لیکن صنف کے اعتبار سے زندہ رہے گا یا نہیں رہے گا۔۔۔ حالات تو یہ بتاتے ہیں کہ کوئی نئی صنف آجائے گی اور لوگ کہیں گے کہ پڑھ دو کچھ اور اس پر ماتم کر لیں گے۔

٭ بعدِ عصرِ عاشور حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی شخصیت کو کیسا محسوس کرتے ہیں؟

شہزادی زینبؑ کا جہاں تک تعلق ہے ان پر ہزاروں درود، ہزاروں سلام، شہزادی شریکة الحسین کہلاتی ہیں۔۔۔ اور ایک شعر ہمارے نیر سرسوی کا ہے بڑا اچھا شعر ہے۔۔۔ع

اس لئے لائے تھے زینبؑ کو حسینؑ ابنِ علیؑ

اِک مقرر کی ضرورت بھی تھی تلوار کے ساتھ

چونکہ یہ میڈیا کا دور ہے اور آپ بھی میڈیا سے تعلق رکھتے ہیں۔۔ اس زمانے میں تو کوئی میڈیا نہیں تھا۔۔۔شہزادی زینبؑ کا جو کردار ہے کربلا میں وہ سمجھ لیجئے کہ شریکة الحسینؑ سے خود ترجمانی ہو جاتی ہے، ایک سلام کے چند اشعار پیشِ خدمت ہیں۔۔۔ع

ترے شرف سے ملی ہم کو یہ خبر زینبؑ

مڑا ہے حق بھی اُدھر تو مڑی جدھر زینبؑ

یہ کربلا بھی تو گونگے کا خواب ہو جاتی

نہ ہوتی شاہؑ کے ہمراہ تو اگر زینبؑ

سدا بہار ہیں اَشکوں کے پھول کی لڑیاں

کہ فتحِ جنگ کا سہرا ہے تیرے سر زینبؑ

کہا یہ چشمِ رسالت نے دیکھ کر تجھ کو

حسینؑ نور ہے میرا مگر نظر زینبؑ

ہوئی ہے دینِ محمد کو بھی وہیں معراج

جہاں پہ ختم ہوا ہے ترا سفر زینبؑ

دیارِ شام سے لے کر نبی کے روضے تک

نہیں ہے دین کے دامن میں کچھ، مگر زینبؑ

اور اس کے ساتھ ہی محترم نظیر باقری صاحب سے ہماری گفتگو اختتام کو پہنچی( یہ گفتگو 2008ءمیں مجلہ فکرِ زینبؑ میں شائع کی گئی تھی، قارئین کی دلچسپی کی خاطر پیش کی گئی)

نظیر باقری صاحب کے مشہور نوحوں کے مطلع پیشِ پیش خدمت ہیں۔۔۔ع

بیڑیاں روئیں کبھی پاو¿ں کے چھالے روئے

کیسے قیدی تھے جنہیں قید کے چھالے روئے

۔۔۔۔۔

کس طرح اپنی تباہی کی خبر لے جائے

پاس زینبؑ کے بچا کیا ہے جو گھر لے جائے

۔۔۔۔۔

یہ لبِ زینبؑ پہ نوحہ رہ گیا

ہائے بھیا ہائے بھیا رہ گیا

۔۔۔۔۔

اک لٹا گھر ہے اور زینبؑ ہے

ہم دعا گو ہیں کہ اللہ رب العزت نظیر باقری صاحب کی علمی و مالی توفیقات میں اضافہ فرمائے۔۔۔ آمین یارب العالمین۔

نظیر باقری صاحب کے یوٹیوب چینل ک لنک درج ذیل ہے۔۔۔۔ سبسکرائب کیجئے اور شیئر فرمائیے۔۔۔ شکریہ

MARASI E NAZEER BAQRI

DAST E KAINAT

HANSII

TOTAL MARSIYE = 2

Total Page Visits: 130 - Today Page Visits: 4

eMarsiya – Spreading Marsiyas Worldwide