AKHTAR HASHMI – اختر ہاشمی

اختر ہاشمی
پورا نام سید منقاد حیدر ہاشمی ادبی نام اختر ہاشمی ابن سید محبوب الحسن ہاشمی20 اگست 1954 پاکستان کے شہر لاہور میں پیدا ہوئے۔ اختر ہاشمی کا آبائی تعلق ہنومان گنج ، الہ آباد کے ایک گاؤں منڈور سے تھا. اس خوبصورت تصویر میں اختر اپنے والد پر ایک تصنیف لیے تشریف فرما ہیں “محبوب ِ علم و ادب حبیب جونپوری” جس کے ترتیب و تدوین ڈاکٹر اختر ہاشمی نے کی تھی۔

مجھے سوال و جوابِ لحد کی کیا پرواہ
علیؑ کا نام مرے نزع کے بیان میں ہے
میں اس کی عظمت کردار کو کروں گا سلام
علیؑ سا لاؤ اگر کوئی اس جہان میں ہے
فرشتو جاؤ یہ موقع نہیں ہے باتوں کا
ابھی نہ چھیڑو کہ اخترؔ علیؑ کے دھیان میں ہےعلی کے سامنے فطرت کو سرنگوں دیکھا
اگر یہ چاہیں تو اٹھنے نہ دیں ہوا کے قدم

ادب دوستی وراثت میں ملی اور ایسے گھرانے میں آنکھ کھولی، جہاں مطالعہ بنیادی وظیفہ تھا۔ وقت نے تخلیقی صلاحیتوں کو مہمیز کیا۔ ذوق نے شعر کہنے کی جوت جگائی، یوں اُنھوں نے قلم تھام لیا! ڈاکٹر اختر ہاشمی ایک ہمہ جہت انسان تھے۔ شعری سفر کا باقاعدہ آغاز غزل کی صنف سے کیا، بعد میں حمد، نعت، منقبت، سلام اور مرثیے کی اصناف میں طبع آزمائی کی۔ افسانہ نگاری کے فن سے بھی بھرپور انصاف کیا۔ ادبی و تحقیقی مضامین تواتر سے لکھے، جو اخبارات و رسائل میں شائع ہوئے۔ ناول اور بچوں کے ادب کا بھی تجربہ کیا۔

کیوں کریں ہم نہ سلام ایسے گھرانے کے لیے
جس کی خیرات بھی نعمت ہو زمانے کے لیے
بیٹیاں جبرِ حکومت کو کچل سکتی ہیں
زھرا ای ہیں یہ احساس دلانے کے لیے
آخری حدِ نبوت سے امامت ہے شروع.
دونوں منصب ہیں یہ زھرا کے گھرانے کے لیے
جسم میں قلب فقط اس لیے قدرت نے رکھا
آلِ زہرا کی مودت کو بسانے کے لیے

اِسی دوران پی ایچ ڈی کا مرحلہ طے کیا۔ ڈاکٹر صاحب کی مطبوعہ کتابوں کی تعداد 30 کے قریب ہے، جن میں افسانوی و شعری مجموعوں، تنقیدی و تحقیقی کُتب کے علاوہ نعتوں اور افسانہ نگاروں کے ’’انتخاب‘‘ بھی شامل ہیں۔ یونیورسٹی آف ایجوکیشن لاہور، پنجاب کے شعبۂ اردو کے تحت اُن کی شخصیت و فن کو ایم اے، بی ایڈ کے مقالے کا موضوع بنایا گیا۔ پی ایچ ڈی کی سطح پر بھی اُن کی خدمات پر کام ہورہا ہے۔ پیشہ ورانہ زندگی اسٹیٹ بینک آف پاکستان میں گزری۔ ادب دوستی نے دفتر کو لائبریری کی شکل دے دی۔ ادبی تنظیموں سے وابستگی پرانی تھی۔ اختر ہاشمی اپنے چچازاد بھائی، اور معروف دانشور، پروفیسر ڈاکٹر شبیہہ الحسن شہید کو اپنا ’’آئیڈیل‘‘ اور اپنی نثری سرگرمیوں کا محرک قرار دیتے تھے۔

احساسِ رنج و غم سے نہ دامن بھگو سکی
افسوس اپنے باپ کو بیٹی نہ رو سکی
کر کے سُپرد فضہؓ کو خود اپنا گلستاں
خود حسنین اب کہیں گے تجھے میرے بعد ماں
یوں آنسووں میں رنج نہ اپنے سمو سکی
افسوس اپنے باپ کو بیٹی نہ رو سکی
بچوں کو میں نے نازوں سے پالا مری بہن
مجھ کو خبر ہے زہر پیے گا مرا حسنؑ
یہ سوچ کر ہی راتوں کو مادر نہ سو سکی
افسوس اپنے باپ کو بیٹی نہ رو سکی
دربار میں ظالم کے گئ ہو کے اشکبار
تڑپے بہت رسولﷺ بھی ہو ہو کے اشکبار
اُمت سے کوی خیر کی راحت نہ ہو سکی
افسوس اپنے باپ کو بیٹی نہ رو سکی

چار بھائی، دو بہنوں میں اُن کا نمبر تیسرا تھا۔ اجداد کا تعلق الہ آباد اور جون پور، ہندوستان سے ہے۔ تقسیم کے سمے خاندان نے ہجرت کی۔ ابتداً کراچی میں قیام کیا، آب و ہوا راس نہیں آئی، تو لاہور کا رخ کیا، وہیں 20 اگست 1954 کو اُنھوں نے آنکھ کھولی۔ اُن کے دادا، سید شبیر حسن صفا الہ آبادی بہ طور شاعر معروف تھے۔ شعبۂ تعلیم سے متعلق اُن کے والد، سید محبوب الحسن ہاشمی ایک ہمہ جہت انسان تھے۔ ’’عابد مجید سی بی ہائی اسکول، لاہور‘‘ کے وہ ہیڈ ماسٹر رہے۔ عالم دین کی حیثیت سے شناخت رکھتے تھے۔ شعری و ادبی ذوق بُلند تھا۔ غزلیں بھی کہیں، نثرنگاری کا بھی تجربہ کیا۔ وہ حبیب جون پوری تخلص کیا کرتے تھے۔ ’’کلیات حبیب جون پوری‘‘ کے عنوان سے اُن کا کلام منظر عام پر آیا۔ اختر ہاشمی کی تحریر کردہ سات سو صفحات پر مشتمل کتاب ’’حبیب جون پوری: فن و شخصیت‘‘ کی اشاعت بھی ہوئ۔

یادیں کھنگالتے ہوئے اختر ہاشمی کہتے تھے “گھر کے ماحول میں علم و ادب رچابسا تھا، گفتگو میں اشعار بہ کثرت برتے جاتے۔ ذوق مطالعہ نے ابتداً بچوں کے رسائل کی جانب متوجہ کیا۔ شعور کی دہلیز عبور کرنے کے بعد میر انیس اور مرزا دبیر جیسے قادرالکلام شعرا سے واسطہ پڑا۔ نثر میں یوں تو کئی لکھاریوں کو پڑھا، تاہم نامور مرثیہ گو شاعر اور ادیب، سید وحید الحسن ہاشمی نے زیادہ متاثر کیا، جو رشتے میں اُن کے سگے چچا تھے۔

اختر تخلص کیا، بعد میں ادبی دنیا میں اختر ہاشمی کے نام سے معروف ہوئے۔ کراچی آنے کے بعد مشق سخن جاری رہی۔ چچا، سید وحید الحسن ہاشمی کے توسط سے یہاں کے ادیبوں، شاعروں سے رابطہ ہوا۔ آنے والے برسوں میں اختر ہاشمی نے تواتر سے مشاعرے پڑھے۔ غزلیں مختلف اخبارات و رسائل میں شایع ہوتی رہیں۔ فنّی گرفت کے وسیلے جلد ہی ادبی حلقوں میں شناخت بنا لی۔

یوں تو زندگی میں کئی خوش گوار لمحات آئے، جنھوں نے یادوں پر گہرے نقوش چھوڑے، لیکن ایک معاملے کا تفصیلی ذکر ضروری ہے، جس نے مسرت کے انوکھے تجربے سے روبرو ہونے کا سامان کیا۔ اختر ہاشمی کے بہ قول اُنھیں حضرت امام حسینؑ کی 52 نظموں کا اردو میں منظوم ترجمہ کرنے کا اعزاز حاصل ہے، اور یہ اپنی نوعیت کا پہلا کام ہے۔ یہ ذمے داری معروف مفسر قرآن، پروفیسر ڈاکٹر محمد حسن نے اُنھیں سونپی تھی، جنھوں نے لندن کی ایک لائبریری سے حضرت امام حسینؑ کی نظمیں حاصل کیں۔ اِن نظموں کی ’’اشعار امام حسینؑ‘‘ کے عنوان سے کتابی شکل میں اشاعت جلد متوقع تھی۔ ’’سخن ور‘‘ کے مدیر اعلیٰ اور معروف شاعر و ادیب، نقوش نقی اشاعت کا انتظام کر رہے تھے۔

مرحوم پچھلے برس کرونہ وائرس میں مبتلا ہوئے جس سے صحت کافی متاثر رہی۔ طویل علالت کے بعد بفضلِ شہزادی فاطمہ سلام اللہ علیہ ، امام بارگاہ حسینیہ سجّادیہ میں جشنِ تاج پوشیِ ولیِ عصرؑ میں ڈاکٹر اختر ہاشمی صاحب نے ایک ایسا مطلع کہہ دیا کہ جس نے ‘ انتظارِ فرج ‘ کا مکمل خلاصہ پیش کر دیا ۔ شعر پڑھیے اور دعائیں دیجیے

امامِ عصرؑ کے رستے کو اختیار کرو
پھر اس کے بعد جو چاہو تو انتظار کرو

امام بارگاہ عباس علمدار نزد کامران چورنگی گلستان جوہر کراچی میں ہر اتوار کی صبح دعائے ندبہ کی تلاوت کی جاتی ہے اور اسکے بعد مرحومین کے ایصال کے لئے مجلس عزا منعقد ھوتی ہے ۔ اتوار چھ جون کو جناب زاہد حسین کی والدہ ماجدہ کی برسی کے سلسلے میں مجلس عزا منعقد ہوئی جس میں معروف شاعر ڈاکٹر اختر ہاشمی صاحب نے نو تصنیف مرثیہ بہ عنوان “شہسوار انتظار” پیش کیا ۔ ناسازئ طبع کے باوجود ہاشمی صاحب نے مرثیہ پڑھا اور خوب پڑھا تھا۔ مرثیہ کے دو بند بطور نمونہ آپ کی خدمت میں پیش ہیں

اے شہسوار ِ دلدل ِ غیبت علیؑ کے لال
اے رہنماے راہ ِ بصیرت علیؑ کے لال
اے رایتِ جنود ِ ہدایت علیؑ کے لال
اے آفتاب عزم ِ مشیت علیؑ کے لال
حملہ ہے تیرگی کا نظام ِ حیات پر
کرنیں ذرا بکھیر دے اس کائنات پر

پتلی میں چھپ سکےنہ نظرجس سے وہ امام
پنہاں نہیں ھے ارض بشر جس سے وہ امام
کرتے ہیں بات سنگ و شجر جس سے وہ امام
خفیہ نہیں ملک کی خبر جس سے وہ امام
جو یہ نہ مانے اس کے تشیع میں حرف ہے
مولا کا دل خدا کے ارادے کا ظرف ہے

کچھ ہفتہ قبل انہوں نے مجھے 3 نایاب کتابیں برطانیہ بھیجیں

١ – تقریبا 1100صفحات پر مشتمل قیصر بارہوی کے 53مرثیے
٢ – وحید الحسن ہاشمی کے 40 مرثیوں کا مجموعہ
٣ – اختر مرثیے جس میں مرحوم کے 5 مرثیے شامل ہیں

انشاللہ بہت جلد یہ مرثیے ای مرثیہ پر نظر آئیں گے ۔ میرے بے حد اسرار پر بھی کوئی معاوضہ نہ لیا اور فرمایا آپ کی خدمت میں بھیجا ہے بس اب آپ آگے خدمت کیجیے۔ کس قدر مخلص انسان تھے!! دو روز قبل ہی بات ہوئی تھی میں نے وعدہ کیا تھا کہ اگست میں آپ کے یوم ولادت پر ایک تفصیلی تحریر لکھوں گا ۔ اختر ہاشمی نے مجھے اپنے مرثیوں کی تعداد 35 بتائ ہے انشااللہ اگست میں ان کے مرثیوں کے حوالے سے بھی تحریر شامل ہوگی۔ ابھی تو ہم نے بہت باتیں کرنی تھیں اختر بھائ مگر زندگی نے آپ سے وفا نہ کی اور رضاے الہی سے وقت قضا آپہنچا. الله مغفرت فرماے آپ کی

ترتیب و انتخاب و پیشکش : سوگوار ذیشان ذیدی

مراثئ اختر ہاشمی

احمد مختار کا پیارا

آفتاب عزم حسینی

روح ایقلاب

شہر مظلومیت

وارث مشکل کشا

Total Page Visits: 46 - Today Page Visits: 1

eMarsiya – Spreading Marsiyas Worldwide