ظریف جبلپوری
فرحان رضا
پاکستان میں مزاح نگاروں کی مرثیہ نگاری ایک علیحدہ مضمون کی متقاضی ہے لیکن جب بھی ان مزاح نگاروں کی تاریخ مرتب کی جائے گی اس کے سرفہرست ناموں میں شوکت تھانوی اور دلاور فگار کے ساتھ ساتھ ایک اور صف_ اول کے مزاح نگار ظریف جبلپوری صاحب کا نام ضرور شامل ہوگا.
سید حامد رضا نقوی المعروف ظریف جبلپوری کی مرثیہ نگاری کے پیچھے ایک معجز نما واقعہ ہے. ظریف صاحب بہت کم عمر ی سے ایام_ عزا میں مرزا دبیر کے مرثیے تحت اللفظ میں پڑھتے تھے( راقم میں ظریف صاحب کے فرزند ساجد صاحب سے دریافت کیا کے مرزا دبیر ہی کیوں؟ ساجد صاحب نے جواب دیا کہ جبلپور میں مرزا دبیر کا ہی مرثیہ پڑھا اور پسند کیا جاتا تھا). قیام_ پاکستان کے وقت 1947 میں ظریف صاحب کے خانوادے نے ہجرت کی اور ہندوستان سے
آکر فرئیر روڈ پر ایک فلیٹ میں ۱۸ خاندان ایک چار کمروں کے فکیٹ میں مقیم رہے اس کے بعد پاکستان نیوی کے میڈیکل ریکارڈ ڈیپارٹمنٹ میں ملازمت کا آغاز کیا اور سرکاری مکان ماری پور میں ملا وہاں سے اےبیسینیا لاینزشفٹ ہوئے.
اس دوران فرمان_ ظرافت شایع ہوکر مقبول ہوچکی تھی اور مزاح کی دنیا میں ظریف صاحب کا نام جانا اور مانا جاچکا تھا. ظریف جبلپوری ا یام_ عزا میں بحیثیت سید حامد رضا نقوی تحت اللفظ خوانی مراثی_ مرزا دبیر سے بھی پہچانے جانے لگے. ڈاکٹر یاور عبّاس کے عشرہ_ مجالس میں بھی تحت اللفظ میں مرثیہ پیش کیا. ایک سال شاید ١٩٥٨ یا ١٩٥٩ میں ڈاکٹر یاور عبّاس نے اس سال کے عشرہ_ مجالس میں ظریف صاحب کا نام مرثیہ نگاروں کی فہرست میں شا یع کردیا اور شام میں ظریف صاحب کو اطلاع دی ساتھ ہی اصرار کیا کہ اس سال آپ مرثیہ پیش کریں گے. روایت ہے کہ ظریف صاحب نے اپنی اہلیہ سے اس ماجرے کو بیان کیا اور یہ طے کر کے سوئے کہ صبح یاور صاحب سے التجا کریں گے کہ آج تک مرثیہ نہیں کہا ہے اور انھیں دبیر کی خوانندگی تک محدود رہنے دیں. خواب میں بی بی زہرا سلام اللہ علیہ کی زیارت ہوئی اور انہوں نے فرمایا کہ گھبراؤ مت ہم اس مرثیہ میں تمہارے ساتھ ہیں اور ہماری خواہش ہے کہ تم ہمارے بیٹے عبّاس کے حال کا مرثیہ لکھو. ظریف صاحب گھبرا کے اٹھے اور عزم کیا کے اس سال مرثیہ ضرور لکھیں گے بقیہ شب جاگ کر گزاری اور اپنے وقت پر آفس روانہ ہوگیے.آفس سے واپس آے تو” عبّاس کربلا میں علی کا نشان ہے” مرثیہ کے 45 بند ہوچکے تھے.
ظریف صاحب نے مرثیہ لکھا اور بہت جم کے پڑھا مشق_ دبیر تو تھی ہی تو کیوں نہ یہ بیتیں مقبول ہوتیں
مائل بہ لطف سیدابرار ہوگئے
عبّاس_ نامدار علمدار ہوگئے
اور
غازی ہوں سب قرینے سے آگے نشان ہو
جعفر کا طنطنہ ہو تو حیدر کی شان ہو
یہ بند دیکھئے
رخ جانب_فرات ہےاس کروفرکے ساتھ
کیسا اشارہ اڑتا ہےگھوڑا نظر کے ساتھ
حیدر کی ان بان ہےفتح وظفر کے ساتھ
ایک نور ہےکہ پھیل رہا ہےقمر کے ساتھ
اٹھے حباب سطح پہ تسلیم کے لیے
طوفاں رکے حضور کی تعظیم کے لیے
ظریف صاحب نے چار مرثیے تحریر کئے.
١- عبّاس کربلا میں علی کا نشان ہے – در حال حضرت عبّاس
٢- مدح آل شہ_ لولاک ہے فطرت میری – در حال امام حسین
٣- مشہور_ روزگار ظرافت نگار ہوں – در حال حضرت علی اکبر
٤- دشت_ غربت میں مدینے کے مسافر آے – در حال حضرت جون
یہ چاروں مرثیے غیر مطبوعہ ہیں جو کے ظریف صاحب کے فرزندوں جناب ساجد نقوی بھائی اور جناب راشد نقوی بھائی کی اجازت کے ساتھ اپنے عزیز دوست اور فروغ_ مرثیہ کے بانی اصغر مہدی اشعر کو برقی رابطے کے توسط سے بھیج دئے جاہیں گے تاکہ emarsiya پر اپلوڈ ہوجائیں اور احباب ظریفوں کے ظریف جناب ظریف جبلپوری کے سنجیدہ کلام کو پڑھ سکیں.
اس مختصر مضمون کا اختتام ظریف صاحب کے اس بند سے کرتا ہوں جو مجھے بہت پسند آیا.
جھنڈےگڑےہیں میری ظرافت کےجابجا
اس فن میں کوئی میرےمقابل نہ ٹکسکا
میرے مذاق_ شعر سے دنیا ہے آشنا
لیکن غم _ حسین نے سنجیدہ کردیا
دنیا کے ساتھ ساتھ جو عقبی کاہوش ہے
دل کا معا ملہ ہے یہ ا یماں کا جوش ہے
سید حامد رضا نقوی المعروف ظریف جبلپوری اسی غم_ حسین کے ساتھ اس دار_ فانی سے ١٩٦٤ میں کوچ کر گیے.
میں زیرہ چیں ہوں قاب_ جناب_ امیر کا
شاہوں سے کیوں سوا نہ ہو رتبہ فقیر کا
از قلم : فرحان رضا
23 مارچ 2020
نام
سید حامد رضا نقوی
تخلص
ظریف جبلپوری
مقام پیدائش
جبلپور
سن پیدائش
نومبر 1914
رہائش
جبلپور آگرہ دہلی اور کراچی
ملازمت کے سلسلے میں کچھ عرصے راولپنڈی میں قیام
تین مجموعہ کلام
فرمان ظرافت – 1952
تلافی مافات – 1962
نشاط تماشہ – 1992
تاریخ وفات:
یکم مارچ 1964
مدفون
خراسان باغ کراچی میں آسودہ خاک ہیں
Special Thanks to Janab Farhan Reza for this addition
MARASI E ZAREEF JABLPURI
ABBAS KARBALA MAIN ALI KA NISHAN HAI – GHAIR MATBOA
DASHT E GHURBAT MAIN MADINE SE MUSAFIR AAYE GHAIR MATBOA
MADEH AAL E SHAH E LOLAK HAI FITRAT MERI – GHAIR MATBOA
MASHOOR ROZGAR E ZARAFAT NIGAR HOON – GHAIR MATBOA
TOTAL MARSIYAS = 4