رثائی ادب و دبستان عظیم آباد کا ایک علمی، ادبی و رثائی خانوادہ.
تحریر : فرحان رضا
تاریخ: 8 جون 2020
دنیا کو اس وقت globalization سے بیک وقت فائدہ و نقصان دونوں کا سامنا ہے مگر مجھے فائدہ تھوڑا زیادہ لگتا ہے کیوں کہ سوشل میڈیا اسی globalization کی پیداوار ہے اور یہ دنیا میں ایک ایسا رابطہ بن گیا ہے کہ آپ کہیں بھی ہوں اور دنیا میں کسی سے بھی رابطہ کر سکتے ہیں. آپ حیران ہو رہے ہونگے کہ اوپر دئے گئے عنوان سے اس تمہید کا کیا تعلق ہے.
در اصل کچھ روز قبل مجھے فیس بک پر ایک 88 بند کا مرثیہ پڑھنے کا اتفاق ہوا، فی زمانہ جس طرح کی شاعری ہورہی ہے اس کے مقابلے میں مجھے وہ مرثیہ اپنی زبان و بیان اور فکر کی گہرائی و گیرائی کے حوالے سے بہت مختلف محسوس ہوا.
مطلع تھا – اے خامہ تازہ کاری فرہنگ پھر دکھا
میں نے تبصرہ کیا اور اس کے بعد صاحب مرثیہ سے گفتگو بھی ہوئی پتا چلا کہ انکے والد بھی مرثیہ گو شاعر تھے انکے بھائی بھی مرثیہ گو شاعر ہیں. مختصر بات ہوئی اور میں نے درخواست کی کہ مجھے اپنے والد کے مرثیے بھی بھیجیں. ساتھ ہی ساتھ میں نے اپنے دوست اصغر رضوی کو بھی بتا دیا کہ emersiya پر کچھ مرثیے مطبو عہ و غیر مطبوعہ میں بھیجوں گا.
ان جناب نے اپنے والد کے مرثیوں کی کتاب “نوا ئے سکوت” پی ڈی ایف پر بھیجی، کتاب کے دیباچہ کی پہلی لائن پڑھ کر میں اچھل پڑا کہ فیس بک پر اپنا مرثیہ پوسٹ کرنے والےسید عفیف سراج رضوی مشہور فلسفی و شاعر اجتبی رضوی کے پوتے ہیں اور انہوں نے اپنے والد مرتضی اظہر رضوی کے مرثیوں کی کتاب بھیجی ہے جو اجتبی رضوی کے اکلوتے فرزند ہیں. یعنی یہ گھرانہ دبستان عظیم آباد کا وہ ادبی مقتدر گھرانہ ہے جو کہ صدیوں سے علم و ادب کی زلفوں کو سنوار رہا ہے. اس خانوادے کی چار پشتوں سے تو میں واقف ہوں اور کتابوں میں تذکرہ پڑھتا رہا ہوں. سید عفیف سراج کو مرکز بنا کر نیچے ان کے خانوادے کا ذکر ہے.
١- سید ا ظہر حسن رضوی (پر دادا، مرثیہ گو شاعر )
2 – پروفیسر اجتبی رضوی – (دادا، فلسفی، دانشور و شاعر صاحب شعلہ ندا)
3- سید مرتضی اظہر رضوی ( والد، فلسفی و مرثیہ گو شاعر)
4- حسین تاج رضوی ابن مرتضی اظہر رضوی(برادر، مرثیہ گو شاعر)
چار نسلیں تو سامنے ہی ہیں اور جو قارئین پروفیسر اجتبی رضوی سے واقف نہیں ہیں انکے لیے عرض کردوں کہ بیسویں صدی کے اوائل میں عظیم آباد ایک علیحدہ دبستان بن گیا تھا جہاں علمی و ادبی سرگرمیاں عروج پر تھیں.
بقول صفی لکھنوی
اک زمانہ ہے مقر خالی معرف ہم نہیں
یہ زباں دانی میں دلی یا اودھ سے کم نہیں
رثائی ادب کے حوالے سے پہلے ہی یہاں مرزا دبیر کی وجہ سے زمین ہموار تھی جیسا کہ شاد عظیم آبادی اور جمیل مظہری کے دادا سید مظہر حسن مرزا دبیر کے شاگردوں میں سے تھے. بیسویں صدی کے آغاز میں عظیم آباد ایک طرف تو قصیدے کا مرکز بن گیا جس میں مدرسہ عبّاسیہ اور مدرسہ سلیمانیہ کا بڑا عمل دخل ہے جہاں تین شعبان اور تیرہ رجب کی قصیدہ کی محافل بہت مشہور ہوئیں اور قصائد کے حوالے سےمحافل کے روح رواں مولانا محمد مصطفیٰ جوھَر قبلہ ہوئے اور ساتھ ہی ساتھ شاد عظیم آبادی اور زار عظیم آبادی کے بعد اس دبستان سے غزل، نظم، قصیدہ و مرثیہ کی نمائندگی کے لیے ایک مستحکم تثلیث قائم ہوئی.
وہ تثلیث علامہ جمیل مظہری، اجتبی رضوی اور پرویز شاہدی کی صورت میں ایک نئے دور کے ادب کا پیش خیمہ ثابت ہوئی. اجتبی رضوی اس عہد میں باکمال غزل و نظم کے شاعر کی صورت میں ابھرے جن کے اسلوب و افکار کے معترف بڑے بڑے اساتزہ فن ہوئے. علامہ جمیل مظہری کہتے ہیں
زبور_ھند کہئے مظہری !رضوی کی غزلوں کو
حقائق کو جو لفظوں میں سمو کر معجزہ کر دے
معروف تحت اللفظ خواں و میرے استاد سید جاوید حسن کے پھوپھی زاد بھائی اور دبستان عظیم آباد کے ایک اور اہم شاعر غضنفر نواب دانش اپنی مثنوی میں دبستان عظیم آباد کے شاعروں کا حال یو ں نظم کرتے ہیں.
موج و بیتاب، جدا ہوگئے مر کر افسوس
تھے اندھیرے میں یہی شمع جلانے والے
جیتےجیچھوڑ گئےجوھَرومحزون وحمید
بادہ_ شعر و سخن پینے پلانے والے
حیف بےکیف ہے، بزم وطن و راسخ و شاد
چار پانچ اور ہیں بس اگلے زمانے والے
حضرت زار ہیں اور حضرت ثاقب اک سمت
سکہ، ہر قلب سخنداں پہ بٹھانے والے
دوسری سمت کو علامہ جمیل اور عطا
قدرت نظم زمانے کو دکھانے والے
اجتبی، فلسفی_اعظم و علامہ دہر
بہر افکار میں طوفان اٹھانے والے
ایک پرویز رئیس الشعر ا ناز وطن
اپنا گھر چھو ڑ کے پردیس بسانے والے
ایک ملاقات میں پروفیسر سحر انصاری نے مجھ سے اور میرے دوست ڈاکٹر قمر عبّاس سے بہت افسوس کا اظہار کیا تھا کہ پروفیسر اجتبی رضوی کو بہت نظر انداز کیا گیا ہے جب کہ وہ بہت بڑے شاعر ہیں.
اب موضوع سخن یعنی رثائی ادب پر واپس آتے ہیں جو کہ فیس بک پر عظیم آباد کے ایک انتہائی ادبی گھرانے سے رابطہ کا زر یعہ بنا اور مرثیہ گوئی و مرثیہ خوانی کے کچھ نئے در وا کرنے کا سبب بنا.
ابتدا میں عفیف صاحب اور انکے والد کے مرثیے emersiya پر اپلوڈ کئے جائیں گے پھر انکے خانوادے کے دوسرے شاعروں کے مرثیے بھی آپ تک پہنچاہے جائیں گے.
مرتضیٰ اظہر رضوی صاحب کی کتاب میں سات مرثیے شامل ہیں.
1- جب آدمی کو قوت تسخیر دی گئی
2- فکر و نظر کو اے خدا جبریل کے پر بخش دے
3- عرض معنی میں قلم سر بہ گریباں ہے آج
4- اے خدا سینے کو گنجینہ اسرار بنا
5- ہاں اے قلم بہار مضامین نو دکھا
6- ا مر حق سطح عناصر پہ اتارا جوگیا
7- ہاں اے زباں خاموش ہوئی ہے تو غم نہ کر
ان مرثیوں کی تفصیل و تعارف پھر کبھی سہی، آپ خود مرتضی صاحب اور انکے فرزند عفیف صاحب و تاج صاحب کا مرثیہ پڑھ کر محسوس کر لینگے کہ
پانچویں پشت ہے شبیر کی مداحی میں.
مراثئ عفیف سراج
اے خامہ تازہ کاریِ فرہنگ پھر دکھا
AYE KHAMA TAZA KARIEY FARHANG PHIR DIKHA
TOTAL MARSIYAS = 1