HAIDER MIRZA SAHIB ADAB

سید حیدر میرزا صاحب ادبؔ لکھنوی ✍

ترتیب و انتخاب و پیشکش : ذیشان زیدی

ظاہری ہے زُہد و تقویٰ اے ادبؔ
ہم نے سب کی پارسائی دیکھ لی
سرزمین ِ لکھنو میں دبستان ِ میر عشق کی ایک پُرارمان اور گرامی شخصیت گزری ہے جس کا قدردان ِ اہل ِ کمال کو آج تک افسوس ہے یعنی سید حیدر میرزا نام اور ادب تخلص . میر عشق کے سب سے بڑے بیٹے تھے. پیدائش کی تاریخ معلوم نہیں لیکن ان کے پوتے ادیب اعظم جناب مہذبؔ لکھنوی نے اسرار محن میں ان کی تاریخ ٢٨ محرم ١٣١٤ ہجری بمطابق ٩ جولائی ١٨٩٦ لکھی ہے اور انتقال کے وقت ان کی عمر صرف ٣٦ سال بتائی ہے . اس طرح رجب ١٢٧٨ ہجری بمطابق جنوری ١٨٦٣ میں ان کی پیدائش قرار دی جا سکتی ہے
اپنے چچا میر تعشق کی طرح ادب نے بھی تغزل کو کامیابی کا ذریعہ بنایا اور غزل کے مضامین زیادہ سے زیادہ داخل کیے . انھوں نے ایک شاہکار مرثیے در حال حضرت حر کو تغزل آمیز پیرایہ بیان سے شروع کیا ہے
موت کو عاشقِ جانباز دلہن کہتے ہیں
پھول ہر زخم کو مقتل کو چمن کہتے ہیں
بزم ِ شادی ہے یہی دیکھ کے رن کہتے ہیں
تیغ کی چال کو الفت کا چلن کہتے ہیں
ظلمت و نور کی فکر آٹھ پہر ہوتی ہے
شام ہوتی ہے اِدھر صبح اُدھر ہوتی ہے
اہل ِ دیں فوج ِ بدایماں سے نکل جاتے ہیں
شیر نیزوں کے نیستاں سے نکل جاتے ہیں
وصل کے دن شبِ ہجراں سے نکل جاتے ہیں
آشنا نوحؑ کے طوفاں سے نکل جاتے ہیں
بے وفاؤں سے کہا اہل ِ وفا رکتے ہیں
اہل ِ جنت کہیں دوزخ میں بھلا رکتے ہیں
پھر کے گمراہوں سے رہبر کی طرف جاتے ہیں
مڑ کے میخانہ ِ اطہر کی طرف جاتے ہیں
بہر مے ساقی کوثر کی طرف جاتے ہیں
شوق سے کوچہ ِ دلبر کی طرف جاتے ہیں
داخل ِ کعبہ ہوئے چلتے ہی بت خانے سے
پنجتنؑ ہاتھ لگے چار قدم جانے سے
ادبؔ کو پیارے صاحب رشیدؔ کا معاصر ہونے کا شرف حاصل تھا . انھوں نے رشید کی بہار کی دھوم دیکھی اور مجلس میں اس کی بدولت انھیں سرسبز ہوتے بھی دیکھا اس لیے ان کی بہار سے اثر قبول کیا اور اپنے مرثیوں میں بھی ویسے ہی مضامین پیش کیے
جھوم کر نخل ِ صنوبر کہیں سارا ٹوٹا
باغ سمجھا دل پردرد ہمارا ٹوٹا
یاسمیں کا جو کوئی پھول قضارا ٹوٹا
بولے مرغان ِ چمن صبح کا تارا ٹوٹا
خار و خس مورچے گویا سپہ ظالم کے
تازے گلدستے جوانان ِ بنی ہاشم کے
اصحاب امام حسینؑ کی مدح
چاہنے والے تھے الله کے ماشااللہ
طیب و طاہر و پاکیزہ تھے سبحان الله
جب بڑھے جنگ کو کہتے ہوئے انا للہ
ہر قدم پر تھی شہادت کی صدا بسم الله
تھے کفن پوش نہ تھے صاف وہ سفاکوں سے
قصد ِ دربار ِ خدا آئینہ پوشاکوں سے
حضرت حر کو لشکر حسین کا ہر اول شہید کہا جاتا ہے۔ ادب لکھتے ہیں
غُل ہوا خیمہ ِ مولا میں دلاور آیا
ہوش سجادؑ کو یہ سن کے جو دم بھر آیا
تھے یہی ذکر کہ شیدائے پیمبرﷺ آیا
بادشاہ ِ وطن ِ آوارہ کا یاور آیا
روکتے ہیں شہؑ مظلوم وہ گھبراتا ہے
ابھی آیا ابھی مرنے کے لیے جاتا ہے
حضرت عونؑ و محمدؑ کا منصب ِ علمداری کی خواہش کرنا
اس طرح سامنے تھے حضرت زینبؑ کے پسر
نیمچے کمروں میں دونوں کی سروں پر مغفر
آستینوں کو چڑھائے تھے علم پر تھی نظر
ہاتھ خالی تھے مگر بہر نشاں دست نگر
شاد جعفرؑ کی طرح خلد میں جانے کے لیے
کوئی طیار ہو جیسے کچھ اٹھانے کے لیے
پھر حضرت زینبؑ عونؑ و محمدؑ کو سمجھاتی ہیں
شکر صد شکر سمجھ دار ہو سمجھے مطلب
گو وراثت میں پہنچتا ہے تمھیں یہ منصب
پر ابوالفضل قمر ہے ابھی تم ہو کوکب
کہتے ہیں ماہ بنی ہاشم اسے اہل ِ عرب
ہے بجا وہ جو کہے جعفرؑ طیار ہوں میں
عین ِ عباسؑ یہ کہتا ہے علمدار ہوں میں
امام حسینؑ کا رجز
یادگار احمدﷺ و حیدرؑ کا ہوں میں یاد رہے
یہ عمامہ یہ قبا زیب بدن ہے جو مرے
شب معراج رسولﷺ دو سرا پہنے تھے
دور سے شک ہو جسے پاس آکر دیکھے
ذوالفقار ِ اسد الله مرے ہاتھ میں ہے
قوتِ دستِ ید الله مرے ہاتھ میں ہے
ادب نے اپنے مرثیوں میں جذبات نگاری کے اچھے نمونے پیش کیے ہیں. انھوں جناب زینبؑ کا اپنے بھتیجے کی آواز سننا اور اس کا رد ِ عمل یوں بیان کیا ہے
گوش ِ زینبؑ میں جو پہنچی علیؑ اکبر کی صدا
جوش ِ الفت نے کہا دل کا عجب حال ہوا
مسکرائیں کبھی گہ چپ ہوئیں رونا آیا
کبھی فرمایا یہ پیاس اور یہ آواز فدا
قائم اس حق کو خدا تا قیامت رکھے
علیؑ اکبر تجھے الله سلامت رکھے
ادب کے مرثیہ کا یہ حصہ دیکھنے کے بعد ذہن فطری طور پر انیس کے شاہکار مرثیہ جب قطع کی مسافت شب آفتاب نے کی طرف متوجہ ہوتا ہے جس میں حضرت علی اکبر کی اذان سن کر جناب زینب ہے قرار ہو اٹھتی ہیں لوگو ! اذاں سنو مرے یوسف جمال کی . اس میں شک نہیں کہ یہاں ادب نے بھی ان سے اثر قبول کیا ہے . ادب کے اسی مرثیے میں جناب سکینہ کے جذبات اس طرح قلمبند ہوئے ہیں
ناگہاں سامنے بس آئ سکینہؑ مغموم
ہاتھ پھیلا کے سوئے شاہ پکاری معصوم
دل پہ ہے لشکر اندوہ و مصیبت کا ہجوم
بیٹی کی سمت جھکے گھوڑے سے شاہ مظلوم
مضطرب حد سے جو شبیرؑ نے پایا اس کو
اپنی آغوش ِ مطہر میں بٹھایا اس کو
امام حسینؑ کے مجروح ہو کر گھوڑے سے گرنے کا منظر اس طرح پیش کرتے ہیں
خاک پر گرتے ہی بے ہوش ہوئے سرور دیں
زرد تھا چہرہ پرنور تو بند آنکھیں تھیں
دست و پا میں حرکت کا بھی نہ تھا نام کہیں
مر گئے سید ِ زیجاہ ہوا سب کو یقیں
سایہ چتر زری دشمن الله پہ تھا
دھوپ کا رنج و تعب فاطمہؑ کے ماہ پہ تھا
کچھ کھولی آنکھ ہوا غش سے افاقہ جو ذرا
بڑی مشکل سے اٹھے بادشہ عرض و سما
مثل جو جسم مطہر سے لہو بہتا تھا
بے کسی دیکھ کے رونے لگے اکثر اعدا
جلتی ریت پہ عرش بریں بیٹھے تھے
ہاتھ ٹیکے ہوئے بالاے زمیں بیٹھے تھے
ادب کی جوانی کی موت نے مداحئ سید الشہدا کا ارمان پورا نہ ہونے دیا اور صرف ١٤ مرثیے تصنیف فرما سکے۔ پروردگار مغفرت فرمائے۔

 

MARASI E ADAB

MAUT KO AASHIQ E JANBAAZ DULHAN KEHTAY HAIN

TOTAL MARSIYAS = 1

Total Page Visits: 63 - Today Page Visits: 1

eMarsiya – Spreading Marsiyas Worldwide